مندرجات کا رخ کریں

سید محسن طباطبائی حکیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید محسن طباطبائی حکیم

معلومات شخصیت
پیدائش 31 مئی 1889ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 جون 1970ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن نجف   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ
مملکت عراق   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عبدالعزیز الحکیم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی حوزہ علمیہ نجف   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص آیت اللہ سیستانی ،  امام موسی صدر   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  مرجع ،  خادم دین   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید محسن طباطبائی حکیم مشہور بہ محسن الحکیم (پیدائش: 31 مئی 1889ء— وفات: یکم جون 1970ء) المعروف بہ آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم الطباطبائی (عربی: أية الله العظمي سيد محسن الطباطبائ الحكيم‎ ) عراق کے مشہور آیت اللہ اور مجتہد فقیہ مجاہد اور شیعہ مرجع تقلید تھے۔ ان کے اہم کارناموں ميں سے ایک دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کتب خانوں کی تاسیس ہے۔

ولادت اور نسب

[ترمیم]

سید محسن حکیم عید فطر (یکم شوال سنہ 1306 ہجری کو عراق کے مقدس شہر نجف کے مشہور عراقی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مہدی بن صالح طباطبائی نجفی المعروف بہ سید مہدی حکیم[1] عالم دین تھے۔ سید محسن چھ سال کی عمر میں والد کے سائے سے محروم ہوئے اور بڑے بھائی سید محمود نے ان کی سرپرستی سنبھالی۔[2]

مرجعیت

[ترمیم]

1961ء میں آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کی وفات کے بعد آپ شیعہ مسلمانوں کے واحد مرجع بن گئے۔ آپ حوزہ علمیہ نجف کے سربراہ تھے۔ اگرچہ آپ نے سیاست میں حصہ نہ لیا مگر شیعہ مسلمانوں کو آپ نے عراق کی کمیونسٹ پارٹی میں رکن بننے اور حصہ لینے کی شدت سے مخالفت کی۔ عراق میں کمیونسٹ پارٹی اور بعث پارٹی کے دور حکومت میں آپ نے حوزہ علمیہ نجف کا غیر جانبدار کردار برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. حسینی اشکوری، الامام الحکیم، ج 1، ص 17 ـ 21۔
  2. باقری بیدهندی، ج 1، ص 63۔